غزل زندگی : زندگی درد کی زبان بھی ہے

غزل زندگی



زندگی درد کی زبان بھی ہے   

اورکچھ سچ ہے کچھ گھمان بھی ہے

اس میں بکھراہوا سا بچپن ہے
اورانسان کی پہچان بھی ہے

ظلم ظالم کی خون میں اترا
ازبہ خود زہر کا پیمان بھی ہے

پھول کانٹوں کی قید میں تڑپیں
یادِ طفلی عذاب جان بھی ہے

رات کا حسن ہے محبوب بھی ہے
چاند تاروں کا آسمان بھی ہے

موت چاہت کی موت بھی ہےاور
 موت ہر درد سے آمان بھی ہے

زندگی جال عنکبوت میں ہی
ایک الجھی سی داستان بھی ہے


کلام  قندیل سلیم شاہ ازکتاب بسمہ نذیر عنکبوت 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے